Orhan

Add To collaction

لکھ پھر سے تو نصیب میرا

لکھ پھر سے تو نصیب میرا
از سیدہ
قسط نمبر8

نمل بیٹھی ہوئی تھی وه یہی سوچ رہی تھی کے صفوان کل آنے والا ہے اور جو وه کہہ کر گیا ہے وه پکا کرے گا۔۔۔۔۔وه سوچوں میں گھوم تھی تبھی اسکے فون پہ کسی انجان نمبر سے کال آنے لگی 
جی کون۔۔۔۔؟
لیکن آپ نے مجھے کیوں فون کیا ہے۔۔۔۔۔۔دوسری جانب موجود شخص کی بتائیں سن کر نمل کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے اس نے کال کٹ کی اور اٹھ کر اپنے روم میں چلی گئی 
صفوان اور ذبی واپس آگئے تھے رات ہوگئی تھی لیکن صفوان کو نمل نظر نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔۔صفوان روم میں بیٹھا ذبی کے سونے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ذبی کے سوتے ہی وه اٹھ کر نمل کے روم میں آیا
اب کیا لینے آئیں ہیں۔۔۔۔نمل نے اندر آتے صفوان کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔
اپنا حق۔۔۔۔۔صفوان نے اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے ہوۓ کہا 
میں کہتی ہوں چلے جائیں آپ میری سوچ سے زیادہ گھٹیا اور ذلیل نکلے۔۔نمل نے چیخ کر کہا 
میری جان آہستہ بولو۔۔۔۔۔ورنہ سب کو پتا چل جائے گا۔۔۔۔صفوان نے قریب آتے ہوے کہا 
صفوان۔۔۔۔میرے قریب مت آئیں۔۔۔۔ورنہ میں خود کو مار ڈالوں گی نمل نے تکیہ کے نیچے سے چھوری نکالی 
نمل پاگل ہو رکھو واپس صفوان بھی ڈر گیا تھا کیوں نمل نے چھوری اپنی کلائی پہ رکھی ہوئی تھی اس نہ پھلے سے ہی چھوری لا کر رکھ لی تھی 
آپ نے برباد کردیا مجھے۔۔۔۔۔مجھے  لگا تھا آپ نے  صرف ذبی کی وجہ سے میرے ساتھ یہ سب کیا لیکن حقیقت تو کچھ اور ہی تھی۔۔۔۔۔آپ کو صرف میرا جسم چاہیے تھا وه تو اچھا ہوا مجھے پتا چل گیا۔۔۔۔آپ کو پتا آپ منافق ہیں منافق۔۔۔۔۔۔
نمل پلز جو بولنا ہے بول لینا لیکن رکھ دو۔۔۔اسے 
میں اب نہیں رہنا چاہتی زندہ آپ نے مجھے بلکول توڑ کر رکھ دیا ہے۔۔۔۔۔
نمل !!!!!!! صفوان آگے بڑھتا اس سے پھلے نمل اپنی کلائی کاٹ چکی تھی۔۔۔۔۔۔
نمل۔۔۔۔۔۔نمل اٹھو۔۔۔۔۔ماما ڈیڈ۔۔۔۔۔صفوان  اسکی کلائی پہ اسکا دوپٹہ بند رہا تھا 
ماما۔۔۔۔!!!ڈیڈ۔۔۔۔۔
سب دوڑتے ہوۓ صفوان کی آواز پہ آے تو سامنے کا منظر بہت خوفناک تھا۔۔۔۔۔نمل کی کلائی سے خون نکل رہا تھا صفوان اسکے بے جان وجود کو گود میں لئے ہوۓ تھا 
کیا کیا تم نے۔۔۔۔۔۔ہٹو شایان صاحب نے صفوان کو پیچھے ہٹایا اور نمل کو گود میں اٹھا کر کار تک لائے 
ڈیڈ میں بھی چلو گا۔۔۔۔۔۔صفوان بھی پیچھے پیچھے آیا 
صفوان تم نہیں جاؤ گے ذبی  سے بلکول برداشت نہیں ہوا 
دفع ہو جاؤ صفوان۔۔۔۔اپنی شکل مت دیکھنا اگر اسے کچھ ہوا نہ تو  تم بھول جانا تمہارا کوئی باپ ہے اب ہٹو۔۔۔۔۔شایان صاحب نے صفوان کو دھکا دیا ۔۔۔۔اور خود سکینہ کے ساتھ نمل کو  لے کر ہسپتال چلے گئے 
صفوان وہیں بت کی طرح کھڑا تھا اسے غلطی کا احساس ہو رہا تھا 
__________
سو جاؤ نمل دیکھوں  تین بج گے ہیں۔۔۔۔۔ وشما کب سے اسے کروٹیں بدلتے دیکھ رہی تھی۔۔۔
وشما بے انتہا درد  نہ انسان کو سونے دیتا ہے نہ رونے۔۔۔۔۔
نمل مجھے خود نہیں پتا میں تمھیں کیسے حوصلہ  دوں میں کیسے تمہاری الجھی ہوئی زندگی سلجھاوں۔۔۔۔۔۔قسم سے اگر میرے بس میں کچھ ہوتا نہ تو میں ضروری تمہاری زندگی سے وه درد کے صفحہ پھاڑ دیتی۔۔۔۔۔وشما پچھلے چار سال سے اسکے ساتھ تھی اس نے نمل کو راتوں میں روتا تڑپتا دیکھا تھا 
وشما میرے اندر بیٹھا شخص میری سمجھ سے باہر ہے اس سے نفرت بھی کرنے نہیں دیتا اسے بھولانے  بھی دیتا میں بہت تھک گئی ہوں اپنے اندر ہونے والی جنگ سے۔۔۔۔۔۔مجھے نہیں آتا سمجھ اپر والے نہ کیا لکھا ہے نصیب میں میرے
تم ہی تو کہتی ہو نمل اَللّهُ جب آپ کو بہت آزما رہا ہوتا تو آپ کو کچھ بڑا دینے والا ہوتا ہے اور مجھے پورا یقین ہے وه رب تمہارا نصیب پھر سے لکھے گا جہاں کوئی  درد اور غم نہیں ہوگا بس خوشیاں ہونگی۔۔۔۔۔۔۔۔
إنشاءاللّه مجھے بھی انتظار رہے گا اس دن کا۔۔۔۔۔۔
_____________
نمل کو ہوش آگیا تھا۔۔۔۔۔اسے اپنا وجود محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔۔درد کی وجہ سے آنکھوں سے آنسوں بہہ رہی تھے۔۔۔۔۔۔
تبھی دروازہ کھولا اور شایان صاحب اندر آے تھے۔۔۔۔۔
نمل میری بچی۔۔۔۔میں نہیں پوچھتا کیوں کیا یہ لیکن کیا ایک بار بھی ہمارا نہیں سوچا تم نے۔۔۔۔۔۔نمل۔ کی حالت دیکھ کر انکی بھی آنکھیں رو رہی تھی 
تایا ابو مجھے نہیں رہنا اب زندہ مجھے امی بابا کے پاس جانا ہے۔۔۔۔۔۔وه ہچکیوں سے رو رہی تھی شایان صاحب نے اسے گلے سے لگایا 
میری بچی میں کیا کروں۔۔۔۔۔میں مجبور ہوں۔۔۔۔میری اولاد نے برباد کردی تمہاری زندگی۔۔۔۔۔معاف کردو۔۔۔۔
آپ معافی نہیں مانگے۔۔۔۔پلز۔۔۔۔تائی کہاں ہیں۔۔۔؟ 
وه باہر ہیں میں بھجتا  ہوں۔۔۔۔سکینہ اور حمنہ کے گلے لگ کر وه کافی دیر روتی رہی۔۔۔۔
اسے دو دن ہوگے تھے ہسپتال میں صرف حمنہ اسکے پاس تھی۔۔۔۔۔تبھی روم میں کوئی لڑکا آیا ۔۔۔
جی آپ کون۔۔۔حمنہ جو نمل کو سوپ پلا رہی تھی اندر آتے لڑکے کو دیکھ کر کہا 
کیا یہ نمل ہیں؟اس نےنمل کے جانب اشارہ کرتے ہوۓ کہا 
جی یہ نمل ہیں آپ کون۔۔۔۔۔؟ 
نمل نے اسے غور سے دیکھا۔۔۔اسکی آواز جسے جانی پہچانی لگی۔۔۔۔
میں نمل سے ملنے آیا ہوں کیا آپ باہر جا سکتی ہیں مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے
لیکن آپ ہیں کون؟ حمنہ کو اب غصہ آرہا تھا 
حمنہ میں جانتی ہوں انہیں تم باہر جاؤ۔۔۔۔
لیکن۔۔۔حمنہ میں کہہ رہی ہوں جاؤ تم۔۔۔اس نے حمنہ کی بات کاٹتے ہوۓ کہا 
حمنہ اٹھ کر چلی گئی۔۔۔۔
یہ آپ کے لئے ہیں سسٹر اس نے کچھ سامان سائیڈ پہ رکھتے ہوۓ کہا 
آپ کا بہت شکریہ۔۔۔۔آپ نے مجھے سچ بتایا۔۔۔۔۔
شکریہ نہیں کہیں آپ میری بہن جیسی ہیں اور ایک بھائی کیسے برداشت کر سکتا ہے کوئی اسکی بہن کے ساتھ ایسا کرے۔۔۔۔۔لیکن مجھے آپ سے ایسی حرکت کی امید نہیں تھی 
 جی مجھے پتا ہے میں نے یہ کر کے اپنے رب کو ناراض کردیا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ نے میری مدد کیوں کی میں تو آپ کو جانتی بھی نہیں تھی 
دیکھائیں صفوان کے ساتھ میں بہت ٹائم سے ہوں۔۔۔۔اسنے کبھی کسی لڑکی کے ساتھ ایسا نہیں کیا جیسا وه آپ کے ساتھ کرنے والا تھا اور میں بھی بہت گنہگار ہوں  لیکن اب  مجھے سیدھی راہ پہ چلنا ہے بس اسلئے مجھے سے برداشت نہیں ہوا آپ کے ساتھ صفوان کچھ ایسا کرے۔۔۔۔۔وه نظریں جھکا کر بات کر رہا تھا 
نمل کو احساس ہوا اچھے لوگ ابھی بھی دنیا میں ہیں۔۔۔۔۔آپکا میں کن لفظوں میں شکریہ ادا کروں۔۔۔۔۔اسکے احسان پہ آنکھوں سے آنسوں جھلک پڑے۔۔۔
میں آپکا زیادہ وقت نہیں لونگا۔۔۔۔بس اگر اپنے اس بھائی کا شکریہ ادا کرنا ہو تو جب کبھی ضرورت پڑے یاد کر لئے گا۔۔۔۔خدا حافظ وه اٹھ کر چلا گیا 
میرے مالک تیرا بہت بہت شکریہ اگر یہ انسان مجھے سچ نہ بتاتا تو میں کب کا اسکا دل بھلانے کا کھلونا بن چکی ہوتی 
_____________
نمل گھر آگئی تھی۔۔۔اسے گھر آکر ایک اور خبر ملی تھی کے ذبی ماں بنے والی تھی۔۔۔نمل  کا دل ہر چیز سے بے زار ہوگیا تھا 
صفوان اپنے باپ بنے کی خبر پہ بہت خوش تھا۔۔۔۔۔وه مٹھائی لے کرآیا تھا اس نے سب کو کھلائی۔۔۔۔
نمل۔۔۔۔اس نے نمل کے جانب مٹھائی بڑھائی تمہارا شوہر باپ بنے والے ہے مٹھائی نہیں کھاؤ گی۔۔۔۔
نمل نے اسکے ہاتھ سے مٹھائی لی۔۔۔ضرور بہت بہت مبارک ہو آپ کو۔۔۔۔۔لیکن آپ کو ایک بات بتاؤ۔۔۔۔۔جس دن آپ کی اولاد اس دنیا میں آے گی نہ آپ کو میں کہیں نظر نہیں آوُ گی۔۔۔۔۔میں آپکو نہ بد دعا دونگی نہ ہی سزا کیوں اپر جو میرا رب ہے نہ اب وه لے گا میرا بدلہ۔۔۔۔۔۔نمل کہہ کر چلی گئی اور صفوان کو حیران چھوڑ گئی نمل کے لفظوں پہ اسکا دل کانپ اٹھا تھا 
نمل نے سوچ لیا تھا جس دن صفوان کی اولاد اس دنیا میں آے گی وه صفوان کی دنیا سے چلی جائے گی۔۔۔۔کیوں کے وه اب اور برداشت نہیں کر سکتی تھی 
وقت گزرتا گیا۔۔۔۔اور وه دن آگیا جس دن کانمل کو انتظار تھا صفوان ہسپتال گیا تھا ذبی کو لے کر ساتھ حمنہ اور سکینہ  کوزبردستی نمل نے بھیجا تھا اسکے ساتھ۔۔۔۔۔۔اور شایان صاحب آفس میں تھے 
نمل نے اپنا سامان پیک کر لیا اس نے صفوان کے ساتھ اپنی نکاح والے دن کی  تصویر رکھی آخری بار گھر کو دیکھا۔۔۔۔۔مجھے معاف کردیے گا آپ سب میرا یہاں سے چلے جانا ہی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔نہ میں آپ لوگوں کو اور تکلیف دے سکتی ہوں اور نہ خود برداشت کر سکتی ہوں وه الوداع کہتی اپنا درد ساتھ لے کر چلی گئی۔۔۔۔۔۔
________________
الہٰی بستر پہ لیٹا اس وقت کو یاد کر رہا تھا جب نمل اسے چھوڑ کر گئی تھی وه کتنا خوش تھا اپنی بیٹی کی پیدائش پہ۔۔۔۔۔وه ذبی کا ضروری سامان لینے گھر آیا لیکن جب وه گھر آیا تو گھر خالی تھا وه کیسے پاگلوں کی طرح نمل کو پورے گھر میں تلاش کر رہا تھا اور تبھی اسکے موبائل میں نمل کا میسج آیا تھا 
بہت مبارک ہو آپ کو بیٹی ہوئی ہے۔۔۔۔اور بہت شکریہ میری زندگی برباد کرنے کے لئے میں نے جو کہا تھا وہی کیا اب آپ مجھے کبھی نہیں دیکھائیں گے۔۔۔۔۔اور تایا تائی سے بولیے گا مجھے معاف کرد یں الوداع۔۔۔۔ 
صفوان کی آنکھوں سے کس طرح پہلی دفع نمل کے لئے آنسوں گرے تھے اور جب وه ہسپتال گیا تھا تو دوسری بری خبر اسکا کا انتظار کر رہی تھی کے اسکی بیٹی نہیں رہی۔۔۔۔اور پھر نمل کو ڈھونڈنے کی وجہ سے ہر وقت میں گھومتا رہتا تھا جس کی وجہ سے ذبی اس سے طلاق لے کر چلی گئی تھی۔۔۔۔۔۔
رونے کا فائدہ نہیں ہے الہی تم نے جو کیا وہی آگے آیا۔۔۔۔۔اس نے اپنے آنسوں صاف کرتے ہوۓ کہا 
پتا نہیں کہاں ہوگی کیسی ہوگی۔۔۔۔ایک بار تم مل جاؤ نمل اس رب کی قسم پیروں میں گر جاؤں گا تمہاری دی ہر سزا قبول کر لونگا۔۔۔۔۔بس تم سے ایک بار معافی مل جائے۔۔۔۔وه روز  کی طرح نمل کو یاد کر رہا تھا 
_____________
بھائی مجھے کسی ایسی جگہ لے چلیں جہاں مجھے کبھی نہ ڈھونڈ سکے ۔۔۔۔۔اس نے شفع سے کہا 
نمل کیا تمہارا آخری فیصلہ ہے یہ انکل انٹی کا سوچا تم نے۔۔۔۔۔۔
بھائی میں نے بہت مشکلی سے خود کو راضی کیا ہے میرا فیصلہ بدلے آپ مجھے لے چلیں۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے تمہاری جیسی مرضی۔۔۔۔۔وه اسے ایک ہوسٹل لے گیا جہاں اس نے اسکے رہنے کا انتظام کیا اور اسے ایک مدرسہ میں جاب بھی دلائی ہوسٹل میں اسکی ملاقت وشما سے ہوئی تھی  جو اسکے  درد کی ساتھی بن گئی 

   1
0 Comments